میری تحریر کا تماشہ رک گیا ظلم ہونے تک
اب آئی جو رغبت جینا پڑے گا انتم ہونے تک
یہ ہے ناممکن کہ فساد دلوں کے منتشر نہ ہوں
بڑی الجھنوں نے ٹھہرادیا ہے ستم ہونے تک
عشق بھی اٹھتا ہے بس بشر کو مٹانے لئے
پھر زندگی بھی نہیں رہتی یہ جرم ہونے تک
محرک ہے جوانی دھڑکنوں کو کون سنبھالے
رک گئی ہیں سانسیں اوچا الم ہونے تک
میرے اقرار کو تو فقط اعتراض تھا میسر
جیون کا اسرار کہ جیؤں گا بلم ہونے تک
میری سوچوں پر غم نے نگہبانی کی ہے
کچھ بھی نہیں ملتا تقدیر کے رحم ہونے تک