میری تقدیر کی ہر عروضی میں جان گیا تھا
اپنے حال لیئے کیا ضروری میں جان گیا تھا
مزاج چہرے کے فسانے آئینہ دیکھ لیتا ہے
اُس مرطوب نین کی مخموری میں جان گیا تھا
جو جریدے بارگاہوں میں اُداس بیٹھے ہیں
انہوں کی بھی علالت حضوری میں جان گیا تھا
کہو تو اور بھید بھی سر شام آگاہ کردوں
کہ تیرے رُخ کی وہ سَرُوَری میں جان گیا تھا
پوُچھتے ہیں لوگ کہ تیری آشنائی کا کیا ہوا
رہہ گئی کہانی ادھوری کہ میں جان گیا تھا
اُس عداوت کو میں نے رہا کردیا سنتوشؔ
اور میری کیا تھی مجبوری میں جان گیا تھا