میری جاں اچھی لگتی ہو
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillگلوں سا مسکراتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
مجھے مجھ سے چراتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
کبھی بے ساختہ پن میں
حصار صحن گلشن میں
نگاہوں سے نگاہوں تک
محبت کی پناہوں تک
سفر کرنا امنگوں کا
حیا کے سارے رنگوں کا
سفر کرتے ہوئے اک دم
بصورت دلنشیں موسم
ذرا پلکیں جھکاتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
مقدر کے ستاروں پر
ہتھیلی سامنے رکھ کر
کبھی خفگی دکھا لینا
کبھی انکو منا لینا
منا کر روٹھے تاروں کو
فلک کے لالہ زاروں کو
محبت ہی محبت میں
شرارت ہی شرارت میں
کوئی نغمہ سناتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
جب آئے جھومتا ساون
فضا کو گدگدائیں دن
نشیلی بدلیاں آئیں
چمن پہ مینہ برسائیں
وہ آنگن میں نکل آنا
حسیں چہرے کا کھل جانا
پھر اک دم ناگہانی میں
ابر سے بہتے پانی میں
ذرا سا بھیگ جاتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
کبھی کاغذ کی پرتوں پر
کبھی رنگیں درختوں پر
وہ میرا نام لکھ لکھ کر
صبح سے شام لکھ لکھ کر
برابر دیکھتے جانا
کبھی سرگوشیاں کرنا
پھر ان باتوں ہی باتوں میں
حسیں مر مر سے ہاتھوں میں
رخ روشن چھپاتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل







