حسین جذبوں کے اک اژدھام سے پہلے
میری جاں لوٹ کر آ جانا شام سے پہلے
آغاز وقت سے دل کی یہی تمنا تھی
کہ تیرا نام آئے میرے نام سے پہلے
عروج عہد بہاراں ہو سنورنا تیرا
تو مجھے سوچ سہی اہتمام سے پہلے
میرے صیاد سے کہہ دو کہ تردد نہ کرے
شکار خود چلا آئے گا دام سے پہلے
نہیں ہے یاد کہ ہوش و خرد پہ کیا گزری
بس ایک روپ سا دیکھا تھا جام سے پہلے
وہاں پہ آ کے تقدس کو چومتی ہے نظر
عجیب موڑ ہے اک تیرے بام سے پہلے