میری سوچوں سے شناسائی سے آگے نکلی
شاعری قافیہ پیمائی سے آگے نکلی
پہلے اِتنا تو نہ تھا شاعری کا شوق مُجھے
یہ لگن حوصلہ افزائی سے آگے نکلی
گُفتگو میری سے چُن پایا نہ موتی کوئی
میری ہر بات جو گہرائی سے آگے نکلی
خود کو گُمراہ سا ہوتا ہُوا پایا میں نے
جب بھی اوقات مری پائی سے آگے نکلی
خاکساروں کو دوبارہ نہ ہُوئی دِید نصیب
ملکہءِ حُسن تو بینائی سے آگے نکلی
میں محبت میں ہوں ناکام کسے کب تھی خبر
بات ساری مری تنہائی سے آگے نکلی
آنکھ میں ، مَیں نے اُسی دِن سے چُبھن کر ڈالی
یہ جو پاگل تری انگڑائی سے آگے نکلی
عشق کے بعد کبھی زخم تو سِل ہی نہ سکے
دِل کی ہر چوٹ مسیحائی سے آگے نکلی
اس کی اوقات نہ تھی مُجھ کو خریدے باقرؔ
میری قیمت مرے سودائی سے آگے نکلی