میری محبت کیسی ہوگی؟؟؟
Poet: Ahsan Mirza By: Ahsan Mirza, Karachiسلجے سلجے بال گھنیرے
شرم و حیاء کی چادر پہنے
میری محبت بیٹھی ہوگی
جھلک جھلک میں اس کو دیکھو
پلک جھپک کر، پلٹ کے دیکھو
میری محبت سامنے ہوگی
اس کا ہوگا ہر انداز نرالا
سرگوشی میں باتیں کرنا
کسی بات پہ ہلکا مسکرانا دینا
میری محبت سچی ہوگی
آنکھیں ہوگی جھیل کی مانند
اس میں ہوگا کاجل کالا
آنکھیں جیسے خواب سہانے
میری محبت گہری ہوگی
اس کی ہوگی آواز پیاری
دنیا کی رت اس میں ساری
آواز جیسے سریلے ترانے
میری محبت میٹھی ہوگی
بالوں میں جب ہاتھ وہ پھیرے
ہوا کا جھونکا چھوکر گزرے
میرے دل میں بات پھر آئے
میری محبت ٹھنڈی ہوگی
اس کا ہوگا چہرہ پیارا
خوبصورتی کا پیکر سارا
چاند بھی یہ تسلیم کرے گا
میری محبت نور کی ہوگی
میں جب اس کو بتاؤں گا
میرا دل ہے تم پر آیا
آنکھیں جھکا کر بولے گی وہ
رسمیں ہیں کچھ اس دنیا کی
رشتے، ناتے، دہلیز بھی گھر کی
عزت، مان اور چاہت سے تم
مانگو میرا ہاتھ بڑوں سے
جب کہیں جاکر بات بنے گی
میری محبت ایسی ہوگی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






