میری مسافتیں کب ختم ہو گئی
زندگی کی الجھیں کب ختم ہو گئی
لکھ تو رہی ہوں نئے نصاب لیکن
ماضی کی یادیں کب ختم ہو گئی
شاید توں نے بھی وعدہ کیا تھا توڑنے کو
میری اندھی اعتمادیاں کب ختم ہو گئی
ایک ہی چہرے میں کہاں بستے ہیں لوگ
میری فطر میں نادانیاں کب ختم ہو گئی
وہ دیکھ چکا ہیں سر سے پاؤں تک مجھے
میری نظروں کی بیقرایاں کب ختم ہو گئی
یہاں پر ہر کوئی اپنا ہنر آزماء رہا ہے
میری بے نام آزماشیں کب ختم ہو گئی
کہاں سے آئی ہے صدا غور تو کرو
میرے خیال کی کہانیاں کب ختم ہو گئی