میری وحشت کو پھر سے کہنے کو
غم زمانے کے یاد آنے کو
کتنے سنگین واقعات ہوئے
چھوڑ کر شہر لوگ جانے کو
مرض مٹ جائے گا مریض کے ساتھ
چارہ گر زہر ہے یہ سینے کو
ہجر بن جائیں نہ ملاقاتیں
اس قدر ہم قریب آنے کو
ہم فریبوں کے ہو چکے عا دی
دے کے پھرخود فریب سہنے کو
ساری محفل ہے پتھروںسے سجی
آئینہ ہم کسے دکھانے کو
ہر نئی چیز دل کو بھاتی ہے
دوست اچھے مگر پرانےکو
دیکھنا پھر کمال فن وشمہ
جب چلے دشت کو ہی پانے کو