کچھ تو میرا خیال کرتے
جان مرے دل کا ملال کرتے
ذرا ذرا سی بات پہ یہ شکن کیسی
محبت کا بیان حال کرتے
میں نے گر ڈالا تھا محبت کا سوال
تم بھی اس سوال کا سوال کرتے
وسوسوں سے کیا مٹانا رنجشیں غم
حقیقت کا جاند شوال کرتے
بھٹک جاتی ہوں میں جدائی کے جنگلوں میں
اس جدائی کا اب تو زوال کرتے
تیرا تقاضا رہتا ہے چھوڑ دو مجھے
چلو تم ہی چھوڑ کر یہ کمال کرتے
اس سوھنی نگاہوں میں وصل کی پیاس ٹہری
میری پیاس سے ذرا تو وصال کرتے
میں نے مانگا ہی کیا تھا فقط محبت
تم زرا تو خود کو جلال کرتے
روز عہد وفا کر کے بھول جاتے ہو
کچھ تو اپنے دعوں کا خیال کرتے
پتھر کے سامنے ماتھا ٹیکنے سے کیا ملتا ہے
محبت کی عبادت کا پورا سال کرتے
بات بات پہ بگڑ جاتی ہے طبعیت تمہاری
میرا نا چلو اپنی صحت کا خیال کرتے