میرے ساجن تیرا جوبن یہ چاند ستارے کچھ بھی نہیں
Poet: zaigham jaffery By: zaigham jaffery, Daskaمیرے ساجن تیرا جوبن یہ چاند ستارے کچھ بھی نہیں
سوچو بچپن میرا آنگن کیا آپ ہمارے کچھ بھی نہیں
جب بھی دھڑکا ہے دل میرا یادیں ماضی کی آتی ہیں
کھوئی ہوئی خوشیاں آنکھوں میں آنسو بن کر لہراتی ہیں
یہ دُور جدائی کرنے کو غیروں میں رہ رہ دیکھا ہے
غیروں کی لگن غیروں کی چبھن غیروں کے سہارے کچھ بھی نہیں
کیا آپ ہمارے کچھ بھی نہیں
مجبور ہوں دل کے ہاتھوں مَیں خاموش ہوں میں مغموم نہیں
ہوتی ہے چیز محبت کیا یہ درد کسے معلوم نہیں
جو درد ہے میرے سینے میں اس درد کے بدلے میں جاناں
میری یہ جلن میرا تڑپن نینوں کے دھارے کچھ بھی نہیں
کیا آپ ہمارے کچھ بھی نہیں
بے درد جہاں کی سازش سے ہمدرد ہمارا روٹھ گیا
جس کے بن جینا مشکل تھا وہ رشتہ ہم سے چھوٹ گیا
اپنوں کو نظر جب ڈھونڈتی ہے اپنے ہی اگر موجود نہ ہوں
کہتا ہے مَن دنیا کا دھن پھر محل منارے کچھ بھی نہیں
کیا آپ ہمارے کچھ بھی نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






