میرے سامنے بیٹھ جاؤ مجھے غزل لکھنی ہے
کوئی اداء سی دیکھاؤ مجھے غزل لکھنی ہے
بیان کرنا ہے ترا حُسن اِس غزل میں
اپنے بارے میں بتاؤ مجھے غزل لکھنی ہے
پردہ نشین بہت لکھ لیا ترے حجاب پے
ذرا گونگھٹ تو اُٹھاؤ مجھے غزل لکھنی ہے
میری سوچ کے گلشن میں ہواؤں کے سنگ
ذرا جھومتے ہوئے آؤ مجھے غزل لکھنی ہے
خوش خط لکھنے میں ذرا کمزور ہوں جی!
ہاتھ پکڑ کے لکھاؤ مجھے غزل لکھنی ہے
کیا سوچے گے دنیا والے مت سوچو
فکروں کو آگ لگاؤ مجھے غزل لکھنی ہے
کومل پَری کوئی خاص تم ہی ہو جاناں!
یُوں نہ اب شرماؤ مجھے غزل لکھنی ہے
نہال رات ہو چکی بہت اب جانے دو
تم بھی سو جاؤ مجھے غزل لکھنی ہے