پہلے اس سے جان پہچان ہو گئی
چند ملاقاتوں میں وہ میری جان ہو گئی
پھر وہ تھی اور اس کی حسیں صورت
جو میرے سخن کا عنوان ہو گئی
میری زیست کی خوشیاں اسےعزیز تھیں
شاید اسی لیے وہ مجھ سے انجان ہو گئی
اب اس کی جدائی ہے اور میری تنہائی
اس کی ذات میری پہچان ہو گئی ہے
خدا کرے اس کی زندگی میں کوئی غم نا آئے
جو میری خوشیوں کی خاطر قربان ہو گئی