میرے شانوں پہ مری شال بدل دیتے ہیں
میرے اشعار مری چال بدل دیتے ہیں
جن کو خطرہ ہو ہواؤں سے بیگانے پن کا
ایسے پنچھی بھی کبھی ڈال بدل دیتے ہیں
جب کبھی سوچ کے کاٹے ہیں جہاں بال اور پر
میرے صیّاد وہاں جال بدل دیتے ہوں
میں تو بچتی ہوں سدا ایسے خداؤں سے جو
کبھی ماضی تو کبھی حال بدل دیتے ہیں
ہم جو جھکتے ہیں کبھی لینے وفائیں اُن سے
وہ محبت کا وہاں مال بدل دیتے ہیں
اُن کے ہاتھوں میں ہے یہ تیرا مقدّر وشمہ
اپنے جینے کو جو ہر چال بدل دیتے ہیں