میرے محبوب مجھے دل سے دعا لایا تھا
کتنی بے چین ہوں اک بار صدا لایا تھا
آج تنہا ہوں اداسی بھرے ویرانے میں
کیسی مجبوری ہے اک درد اٹھا لایا تھا
توڑ رسموں کی، رواجوں کی سبھی دیواریں
دل کی بستی میں مجھے آج بسا لایا تھا
مرے افسانے کا اچھا کوئی انجام تو ہو
اپنی خوشبو سے کوئی پھول کھلا لایا تھا
تیری آنکھوں میں کسی یاس کا پانی بن کر
اشک پلکوں سے کسی طور گرا لایا تھا
شوخ نظروں سے وہ تکتا ہے بہاریں اپنی
پھر بھی چا ہے وہ مری بادِ صبا لایا تھا
وہ جو اترے کبھی دل میں ترے خوشبو بن کر
وشمہ اس باغِ بہاراں کی ہوا لایا تھا