میرے پاس جو تھی کروٹیں اور آہوں کے سرانے
اُن جاگتی نیندوں کے ہاتھ ہیں دعاؤں کے سرانے
اک اتفاق حسرت سے کہیں جو بھی بات ہوئی
وہی بات پڑی ہے اب تک سزاؤں کے سرانے
شاید اُن نظاروں کو نظر لگ گئی کسی کی
جو بھی میں نے رکھے تھے نگاہوں کے سرانے
رواں یہ اشک میرے غم کو بھی کیا بھگوتے
جل گئی ساری انگڑایاں اُن شعاؤں کے سرانے
دھڑکنوں کے ردم میں اب سانسیں بہکتی ہیں
کہاں سے لاؤں پھر وہی بانہوں کے سرانے
کسی کا ترس بھی ترسے نہ ترسے سنتوشؔ
سجدے کو پھول رکھ لیتے ہیں پاؤں کے سرانے