میرے پاس وجوُد یہی دیرینہ تو ہے
قوت حافظہ ہی صحیح کچھ تخمینہ تو ہے
یہاں مسافت کو ہوئی ابکہ ناتراشیدگی نصیب
اُس کے پاس پھر بھی اپنا آشیانہ تو ہے
احتیاج گہرائی سے جس طرف بھی نظر پھیرلو
ہر شخص کا رُخ جیسے بس امیرانہ تو ہے
شیشہ حسرت کو کہیں اور کہاں دیکھوں
یہ چہرہ ہی دل کا آئینہ تو ہے
میں نے دل کی لگن کو دُھن سمجھا
مگر آنکھ کا بھی ہر پیچ نابینہ تو ہے
تیرے رخ سے نہیں ملی طرز نشست سنتوشؔ
اپنی وضع میں رہکر کچھ دن جینا تو ہے