میں آئینہ ھوں وہ میرا خیال رکھتی ھے
میں ٹوٹتا ھوں تو چن کر سمبھال رکھتی ھے
ھر ایک مسئلے کا حل نکال رکھتی ھے
زھیں ھے مجھے حیرت میں ڈال رکھتی ھے
میں جب بھی ترک تعلق کی بات کرتا ھوں
وہ روکتی ھے مجھے کل پہ ٹال رکھتی ھے
وہ میرے درد کو چنتی ھے اپنے پروں سے
وہ میرے واسطے خود کو نڈھال رکھتی ھے
وہ ڈوبنے نھیں دیتی ھے دکھ کے دریا میں
میرے وجود کی ناؤ اچھال رکھتی ھے
دعائیں اس کی بلاؤں کو روک لیتی ھیں
وہ میرے چار سو ہاتھوں کی ڈھال رکھتی ھے
ایک ایسی دھن کہ نھیں پھر کبھی میں نے سنی
وہ منفرد سا ھنسی میں کمال رکھتی ھے
اسے ندامتیں میری کہاں گوارہ ھیں
وہ میرے واسطے آسان سوال رکھتی ھے
بچھڑ کے اس سے میں دنیا کی ٹھوکروں میں ھوں
وہ پاس ھو تو مجھے لازوال رکھتی ھے
وہ منتظر میرا رھتی ھے دھوپ میں
میں لوٹتا ھوں تو چھاؤں نکال رکھتی ھے