جب چپ سادھی ہو دنیا نے
اور
شجربھی تھک کر سو جائیں
جب کاگا بولے آنگن میں
اور برسے آگ ان آنکھوں سے
تب ہم باتیں کرتے ہیں
جب یاد ہو میری سجنی کی
اور گم سم شور ہو آہوں کا
جب سوچیں وصل میں ڈوبی ہوں
اور موسم ہو برساتوں کا
تب میں اور میری تنہائی
اکثر یہ باتیں کرتے ہیں
اب ہجر کی لمبی راتیں ہیں
اور وصل کی کوئ آس نہیں
اب موت کا سورج نیزے پر
اور زیست کی کوئ پیاس نہیں
پر نا میدی تو کفر بھی ہے
نا اہل وفا کا شیوہ ہے
تو کیوں پھر ہم نے تنہائ کا
ذکر دوبارہ چھیڑا ہے
تم میرے تھے تم میرے ہو
پھر وصل کی آس میں کیوں جلنا
جوں ملتے ہو تم خوابوں میں
بس مجھ سے ملتے یوں رہنا