چلو اِک کہانی سُناتا ہوں
میں اپنی زندگانی سُناتا ہوں۔
کس طرح لُوٹا اُس نے مجھے
اِک بات پرانی سُناتا ہوں
بڑی عزیز تھی مجھے
مرے دل میں رہا کرتی تھی
وہ لڑکی اکثر مجھے
جان جان کہا کرتی تھی
اُس لڑکی نے جو کی مرے ساتھ
تُم کو آج اُس کی شیطانی سُناتا ہوں
اِک روز مجھ سے کہتی ہے
ترے جیسے بہت مل گئے
اب تُو جا یہاں سے
مجھے نئے دوست مل گئے
میں دیکھتا رہا اُس کو اور وہ کہتی رہی
میں اپنے چہرے کی آج حیرانی سُناتا ہوں
اُس کی محفل سے ہم
بدنام ہو کے یُوں نکلے
رونے لگے تو آنسوبن کے
آنکھوں سے خون نکلے
اُس رات بکھڑ گیا میں تِنکوں کی مانند
وہ رات تھی کتنی طوفانی سُناتا ہوں
بس اب یونہی ہر ورکے پے
میں اُس کا خیال لکھتا ہوں
تنہا رو رو کے یہ کہانی
میں اکثر نہال لکھتا ہوں
اور کچھ دوستوں کے سنگ بیٹھ کے
یہی درد بھری اپنی کہانی سُناتا ہوں
میں اپنی زندگانی سُناتا ہوں۔
اِک بات پرانی سُناتا ہوں