ہر راہ سے کانٹے ہٹتا رہتا ہوں
اس ترها خود کو اذماتا رہتا ہوں
دولت ہے بے شمار عشق کی مجھپے
پھر بھی غم سے دل لگتا رہتا ہوں
کرتا ہوں روز کام بس میں نے ایک یہ ہی
دشمن کو دوستی سکھاتا رہتا ہوں
ہر شاكھ جھک کر احترام کرتی ہے
میں شیر کوئی جب گنگنتا رہتا ہوں
حق دار میں بھی بن گیا ہوں جنت کا
میں اپنی ماں کے پیر دباتا رہتا ہوں