میں اکثر بیٹھ کے تنہا
Poet: Tasleem Naz Tasleem By: Tasleem Naz Tasleem, Haveli Lakhaمیں اکثربیٹھ کے تنہا
تجھے پہروں سوچتی رہتی ہوں
تیرے ساتھ گزرا
ہر پل ، ہر لمحہ
میں اکثر بیٹھ کے تنہا
وہ ہر لمحہ ، وہ ہر پل
شمارکرتی ہوں
تیری سنگت میں بیتے ہوئے پہر
تیرے قربت میں گزارے ہوئے دن
میں اکثر بیٹھ کے تنہا
وہ پہر وہ دن گنتی رہتی ہوں
وہ چاہتیں وہ محبتیں
جو مجھ کو تم سے ملی ہیں
وہ حدتیں وہ تمازتیں
جو تیرے وجود سے ہی ہیں
میں اکثربیٹھ کے تنہا
وہ محبتیں وہ چاہتیں
وہ حدتیں وہ تمازتیں
محسوس کرتی ہوں
جن راہوں سے
تم گزرا کرتے تھے
جن جگہوں پہ تم بیٹھا کرتے تھے
میں اکثر بیٹھ کے تنہا
ان راہوں سے ان جگہوں سے
تیرا پتہ پوچھتی رہتی ہوں
تیرے لہجے کی چاشنی
تیر ی گفتار کا انداز
تیرے لفظوں کا اعتماد
تیری ذات کا طلسم
میں اکثر بیٹھ کے تنہا
وہ چاشنی وہ انداز
وہ اعتماد وہ طلسم
وہ تیرا لہجہ ڈحونڈتی رہتی ہوں
میں گلی میں چکر لگاتی ہوں
دیوانوں کی طرح
میں چھت پے جا کے بیٹھتی ھوں
آ سمان کو تکتی رہیتی ہوں
کچھ تصویریں بنتی اور بگڑتی ہیں
کچھ یادیں ملتی اور بچھڑتی ہیں
کچھ لمحے کچھ پہر
میری طرف تکتے ہیں
اور گزر جاتے ہیں
اور میں اکثر بیٹھ کے تنہا
ان یادوں سے ان تصویروں سے
ان لمحوں سے ان پہروں سے
تیرا وجود جوڑتی رہتی ہوں
میں تیرے کمرے میں جاتی ہوں
کھڑکی میں رک کے
پہروں خلاوں میں کھوئی رہتی ہوں
پھر تیری کتابوں سے
تیری تصویروں سے
تیری باتیں کرتی رہتی ہوں
میں اکثر بیٹھ کے تنہا
تیرے کمرے سے
تیری تصویروں سے
تیری کتابوں سے
تیرا وجود ڈھونڈتی رہتی ہوں
میں اکثر بیٹھ کے تنہا
تجھے پہروں سوچتی رہتی ہوں
اپنی ذات میں تیرے نقش
ڈحونڈتی رہتی ہوں
تیری یادوں سے تیری تصویروں سے
ان لمحوں ان پہروں سے
میں تیری ذات کو کھوجتی رہتی ہوں
بے مقصد گھومتی رہتی ہوں
میں اکثر بیٹھ کے تنہا
تجھے پہروں سوچتی رہتی ہوں
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






