غم دوراں کے شوریدہ سمندر بھول جاتا ہوں
تری آنکھوں کے صدقے سارے محشر بھول جاتا ہوں
زہے قسمت مجھے اعزاز بخشا بدحواسی نے
میں اکثر دل تری چوکھٹ پہ رکھ کر بھول جاتا ہوں
ہوا کی سر پھری عادت ڈراتی ہے مجھے ہمدم
حرف پرواز پر آتا ہے تو پر بھول جاتا ہوں
کدھر کا فلسفہ جاناں جو تیرا نام آ جائے
تو نکتہ ایک ہوتا ہے تناظر بھول جاتا ہوں
میرے طرز تغافل پر گماں لوگوں کا کیا کہہے
سمجھتے ہیں کہ راہوں کے تغیر بھول جاتا ہوں
زمانے کی تو عادت ہے جنوں پر سنگ باری کی
ترے آنے سے لیلی سارے پتھر بھول جاتا ہوں