میں تو اس بار بہانے سے نکل آئی ہوں
اپنے ہی لکھے فسانے سے نکل آئی ہوں
عدو کی قید سے ملتے ہی رہائی مجھ کو
ایسا لگتا ہے زمانے سے نکل آئی ہوں
اپنی اب خیر منانا کہ تو بھی تنہا ہے
میں تو صیاد ! نشانے سے نکل آئی ہوں
سب کو معلوم ہے تو نے ہی مجھے قتل کیا
پھر بھی تلوار کے دھانے سے نکل آئی ہوں
اب یہی سوچتی رہتی ہوں حقیقت کیا ہے
وشمہ جب اپنے گھرانے سے نکل آئی ہوں