میں عشق و محبت کی کھلاڑی تو نہیں تھی
میں تیری کبھی راج کماری تو نہیں تھی
بخشے ہیں مجھے تُو نے ہی یہ جنگل و صحرا
میں گردشِ حالات کی ماری تو نہیں تھی
تھی میرے مقدر کے اندھیروں میں ستم گر
ہر جیت ترے پیار میں ہاری تو نہیں تھی
جو وحشت و دہشت کی طرفدار ہوئی ہے
یہ قوم محبت کی شکاری تو نہیں تھی
گزرے تھے جہاں اپنی جوانی کے مہینے
معلوم ہوا بستی ہماری تو نہیں تھی
آنکھوں میں قیامت کے مناظر تو تھے وشمہ
ہونٹوں پہ مرے آہ و زاری تو نہیں تھی