میں قلم کا معروف ہوں شاعر تو خواب لکھتے ہیں
اپنی امنگوں سے لپٹی ہوئی دلہن کا حجاب لکھتے ہیں
چمن میں گوشوں پہ شبنم نے عرق ہی چھڑکی
گنچے سے نکلا ہے پھوُل ہم اسے گلاب کہتے ہیں
تم تو خاطر جمعی کے لیئے سحر ڈھونڈنے چل دیئے
ہمیں اداؤں کی تلاش جسے لوگ نایاب کہتے ہیں
یہاں سمندر گہرے ہیں ناؤ کو کنارے ٹھہرا
آندھی بپا ہوگی اتنے آنکھوں میں داب رکھتے ہیں
باہر کی خوشبوءِ سے جہاں کو معطر کرتے رہے
لیکن دامن میں اب بھی تھوڑا عذاب رکھتے ہیں
یہاں جینے لیئے بھی جگرسوزی کی ضرورت ہے
سنتوشؔ موت کو تو بس مہتاب ہی چاہتے ہیں