میں نے دیکھا ہے تجھے
Poet: Rukhsana Kausar By: Rukhsana Kausar , Jalal Pur Jattan, Gujratمیں نے دیکھا ہے تجھے
اپنی آنکھوں کے ایوانوں میں سجتے ہوئے خوابو ں کی طرح
کوئے شمس میں اُبھرتی ہوئی تیری ہنسی کا نشہ
میر ی شاموں کو اک نئی صبح بخشتا ہے
خشبوئے گلاب معتر کی طرح
میں نے سوچا ہے تجھے
اپنی چاہت کے عنوانوں میںِ جو حفظ رہے
دل کی دھڑکن زبان کی تسبیح میں
سانسوں میں پگلتے ہوئے نصابو ں کی طرح
میں نے چاہاہے تجھے
آنکھو ں سے روح کے اُجالوں میں،بنجر آ نکھوں کی زمیں کی طلب
مہکتی ہوئی گلاب خشبوؤ ں کی طرح
میں نے پوجا ہے تجھے
ایسے کہ جیسے شیدائی پھرے کوئی دیوانوں کی طرح
میں نے مانگا ہے تجھے
جیسے کوئی منتر ، کوئی جادو، بساطِ جان میں عظمتِ عشق کو اُجاگر کر دے
تو بھی ایسا دیوتا سا ہے ، میری دُنیا کے حسیں خوابوں کی طرح
میں نے عظمتِ عشق میں پوجا ہے تجھے
کہ تو فرض ہو چکا ہے مجھ پہ ایسے
تیرے بعد کچھ بھی شرک ہو جیسے
میں نے اپنی ذات کی ہر حد میں محسوس کیا ہے تجھے
شہ رگ سے گزرتی ہوئی سانسوں کی طرح
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






