نقاب چہرے سے ہنستے ہوئے ہٹاتی ہوں
میں پیار سے ترے نذدیک آ ہی جاتی ہوں
تو کتنا دور ہے مجھ سے مگر حقیقت ہے
میں تجھ کو اپنے بہت ہی قریب پاتی ہوں
سفر میں مجھ کو بھی تو ہمسفر بنا لیتا
میں اپنے شعروں میں اب حال دل سناتی ہوں
وہ اک سوال کہ جس کا جواب ہے باقی
وہی سوال میں لے کر یہ لب ہلاتی ہوں
کبھی بھی تھاما نہیں ہاتھ میرا الفت سے
جہاں بھی ہے تو چلا آ تجھے بلاتی ہوں
میں مر کے بھی تجھے شائد نہ بھول پاؤں گی
یقین اپنی محبت کا یوں دلاتی ہوں
بہت دنوں سے طبیعت اداس ہے میری
بہت دنوں سے مری جاں تجھے بلاتی ہوں
کیا ہے پیار تو سارہ ملیں گے غم لاکھوں
میں اپنے دل کو یونہی تو نہیں جلاتی ہوں