میں چاہتا ہوں تجھے تجھ سے کہہ نہیں سکتا
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore,Pakistanمیں چاہتا ہوں تجھے تجھ سے کہہ نہیں سکتا
کہے بغیر بھی لیکن میں رہ نہیں سکتا
تو دور بھی ہے مری تجھ کو آرزو بھی نہیں
میں جانتا ہوں تجھے میری جستجو بھی نہیں
کبھی بھی دے گی نہ حق مجھ کو پیار کرنے کا
مگر ہے حق تو مجھے انتظار کرنے کا
لگن ہے ایسی مجھے جس پہ اختیار نہیں
تو میرا پیار ہے لیکن میں تیرا پیار نہیں
مرے خیالوں میں ، خوابوں میں تو ہی رہتی ہے
“ میں تیری ہوں “ مجھے سرگوشیوں میں کہتی ہے
کھنکتی رہتی ہیں ہر لمحہ چوڑیاں تیری
میں دیکھتا ہوں تصور میں بالیاں تیری
مچل مچل کے مرے گیت گنگناتی ہے
مرے خیالوں میں ہنستی ہے ، مسکراتی ہے
تری آواز تخیل میں روز سنتا ہوں
اداس تیرے بنا دیکھ کتنا رہتا ہوں
ہے غیر پھر بھی میں قسمت سے مانگتا ہوں تجھے
نہ مل سکے گی کبھی پھر کیوں ڈھونڈتا ہوں تجھے
سمٹ کے رہتی ہے اکثر تو میری بانہوں میں
میں یاد کرتا ہوں راتوں کو سرد آہوں میں
ترے بدن کی مہک بے قرار رکھتی ہے
مہک یہ روح مری مشکبار رکھتی ہے
حسین پیروں کو رکھتی ہے میرے پیروں پر
لبوں کا لمس بھی دیتی ہے میرے ہاتھوں پر
بکھیرتی ہے جو شانے پہ ریشمی زلفیں
تو چوم لیتا ہوں تیری جھکی جھکی پلکیں
یہ ساری باتیں تخیل کی ہیں مری محبوب !
مری نہیں ، تو کسی اور ہی سے ہےمنسوب
یہ سوچتا ہوں میں کیوں تجھ کو یاد کرتا ہوں
کیوں تیرے واسطے خود کو ناشاد کرتا ہوں
بھلا دوں کیسے تجھے تو ہی مجھ کو بتلا دے
جیوں میں تیرے بنا جینا مجھ کو سکھلا دے
میں چاہتا ہوں تجھے تجھ سے کہہ نہیں سکتا
کہے بغیر بھی لیکن میں رہ نہیں سکتا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






