میں چاہتا ہوں تجھے تجھ سے کہہ نہیں سکتا
کہے بغیر بھی لیکن میں رہ نہیں سکتا
تو دور بھی ہے مری تجھ کو آرزو بھی نہیں
میں جانتا ہوں تجھے میری جستجو بھی نہیں
کبھی بھی دے گی نہ حق مجھ کو پیار کرنے کا
مگر ہے حق تو مجھے انتظار کرنے کا
لگن ہے ایسی مجھے جس پہ اختیار نہیں
تو میرا پیار ہے لیکن میں تیرا پیار نہیں
مرے خیالوں میں ، خوابوں میں تو ہی رہتی ہے
“ میں تیری ہوں “ مجھے سرگوشیوں میں کہتی ہے
کھنکتی رہتی ہیں ہر لمحہ چوڑیاں تیری
میں دیکھتا ہوں تصور میں بالیاں تیری
مچل مچل کے مرے گیت گنگناتی ہے
مرے خیالوں میں ہنستی ہے ، مسکراتی ہے
تری آواز تخیل میں روز سنتا ہوں
اداس تیرے بنا دیکھ کتنا رہتا ہوں
ہے غیر پھر بھی میں قسمت سے مانگتا ہوں تجھے
نہ مل سکے گی کبھی پھر کیوں ڈھونڈتا ہوں تجھے
سمٹ کے رہتی ہے اکثر تو میری بانہوں میں
میں یاد کرتا ہوں راتوں کو سرد آہوں میں
ترے بدن کی مہک بے قرار رکھتی ہے
مہک یہ روح مری مشکبار رکھتی ہے
حسین پیروں کو رکھتی ہے میرے پیروں پر
لبوں کا لمس بھی دیتی ہے میرے ہاتھوں پر
بکھیرتی ہے جو شانے پہ ریشمی زلفیں
تو چوم لیتا ہوں تیری جھکی جھکی پلکیں
یہ ساری باتیں تخیل کی ہیں مری محبوب !
مری نہیں ، تو کسی اور ہی سے ہےمنسوب
یہ سوچتا ہوں میں کیوں تجھ کو یاد کرتا ہوں
کیوں تیرے واسطے خود کو ناشاد کرتا ہوں
بھلا دوں کیسے تجھے تو ہی مجھ کو بتلا دے
جیوں میں تیرے بنا جینا مجھ کو سکھلا دے
میں چاہتا ہوں تجھے تجھ سے کہہ نہیں سکتا
کہے بغیر بھی لیکن میں رہ نہیں سکتا