مجھے مندر محبت کا سجانا چاہئے تھا
مجھے پھر لوٹ کر واپس ہی جانا چاہئے تھا
میں کس کو دوش دوں اپنی محبت کا حوالہ
مری قسمت کا لکھا مجھ کو آنا چاہئے تھا
مجھے اپنی محبت کی فقیری میں ہی رہنا
ابھی اس کی خدائی کا زمانہ چاہئے تھا
لٹا دی زندگی میں نے کسی کی التجا پر
محبت کی کہانی ہےبلانا چاہئے تھا
گل و گلزار کیوں ہوگی زمیں ہم سے پریشاں
غموں کی پھر وہی موسم ،کو جانا چاہئے تھا
شعورِ بندگی بن کر رواں ہونے لگی ہے
سہانی شب کی رانی ہے ملانا چاہئے تھا
اداسی میری آنکھوں کی گواہی کیا نہیں ہے
چلے جانا ہے سب کچھ چھوڑ جانا چاہئے تھا
یہ ساری چار روزہ زندگی اور حرص ہے
جنھیں سن کے بڑی ہی مسکرانا چاہئے تھا
مری بھی ذات میں کچھ خامیاں ہیں مانتی ہوں
بھلا کب یہ کہا تم نے کہ پانا چاہئے تھا
میں اس کی راہ میں اپنی یہ جاں بھی وار سکتی
مگر وشمہ یہ قصہ تو پرانا چاہئے تھا