میں کیسے مان لوں وہ مجھ پے اعتبار رکھتا ہے
وہ ساتھ میرے ہے مگر بے قرار رکھتا ہے
مسلتا رہتا ہے میرے دل کو کسی کلی کی طرح
وہ میرے زخموں کو ہر پل بیدار رکھتا ہے
بھلائے دیتا ہے خود اپنے ہر ظلم کا حساب
اور میری ہر اک خطا کو شمار رکھتا ہے
میرے صحن میں سب موسم اداس رہتے ہیں
مجھے نصیب خزاں اور خود بہار رکھتا ہے
کہاں اب اس کی شکایت زمانے بھر سے کریں
ہزاروں دوست ہیں جن پے وہ جاں نثار رکھتا ہے