آواز وہی تھی
خیال وہی تھا
میں کیسے کہتی ُاسے بدلہ ہوا
جبکہ ُاس کا انداز وہی تھا
پھول وہی تھے
خشبوں وہی تھی
وقت گزر گیا بہت مگر
اب بھی ُاس کا جنون وہی تھا
جھک جھک کے ُاٹھتی نظر تھی
وہ راستہ تھا ، یا منزل تھی
جہاں انجان تھے سارے مگر
اپنا صرف وہی تھا
الفاط وہی تھے
مہتاب وہی تھا
میں کس قدر تھی غم زدہ
جان کر انجان وہی تھا
جو کرتا ہیں خوابوں میں لا کھوں باتیں
دیدار ہوا تو
بس خاموش وہی تھا
وہ دنیا کے رنگوں میں
کس قدر الجھ گیا لکی
کہ اپنی ہی تصویر دیکھ کر پریشان وہی تھا