نئی صدی کی اڑان دیکھو مزاج سب کے بگڑ رہے ہیں
بگاڑ ایسا کہ رفتہ رفتہ بدن کے کپڑے سکڑ رہے ہیں
یہ جاگیریں،یہ تخت شاہی،یہ سلطنت تھی سبھی ہماری
غلام تھے یہ کبھی ہمارے جو آج اتنا اکڑ رہے ہیں
سماج کے یہ تمام شاعر جلا کے خون جگر کو اپنے
سجا کے لفظوں کے ہیرے موتی غزل کے دامن میں جڑ رہے ہیں
قدم بڑھانا سنبھل سنبھل کر،ہے پر خطر راہ عشق انور
سنا ہے کہ عاشیقوں کو اپنے وہ گیسؤں میں جکڑ رہے ہیں