صبح ہوتے اک نازک سی کلی نکلی
جس طرح دروزے سے من چلی نکلی
خد و خال ادئیں اسکی واہ واہ
جنسے دل میں مرے کھلبلی نکلی
جب روداد جو پوچھی تو علم ہوا
وہ بیچاری میری طرح من جلی نکلی
پڑی یکدم نظر تو لگی وہ اپنی سی
قریب آئ تو وہ ظالم اجنبی نکلی
ماحول تازہ ہوا اور دل مہک اٹھا
جیسے جنت سے پری ابھی ابھی نکلی
پیار ملے گا ان سے یہ سوچا تھا
کیا ملتا کہ الفت کی تجوری خالی نکلی
چپ رہنا تو کرتا ہے بیمار احمد
شعر جو لکھے تو جگر کی گرمی نکلی