وہ مری ہستی بہ ہر طور مٹائے اپنے
بے کفن ہی نہیں ، بے گور بنائے اپنے
کھل کے تو دے نہیں سکتا مری باتوں کا جواب
چیخ چلا کے بس آواز دبائے اپنے
خوشیوں میں ہو نہیں سکتا وہ کسی کی بھی شریک
عیب سو ڈھونڈھ کے بس سوگ منائے اپنے
پرسش حال ، کبھی حال غم دل کہنے
دل تو بس آپ سے ملنے کا بنائے اپنے
روٹھنے کے تو طریقے نیے ڈھونڈھے لیکن
ناز برداری کا انداز نبھائے اپنے
تھک چکی ہوں میں بہت ، ڈال رہی ہوں ہتھ یار
جیسا اب آپ کہیں ، ویسا ہی پائے اپنے
دوستی کیسے گوارہ کریں اس کی وشمہ
کاٹ کر میرا گلا ، ہاتھ ملائے اپنے