نام تیرا بھی ہے کہانی میں
Poet: ارشد ارشیؔ By: Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachiاب کے ان اشکوں کی روانی میں
بہہ گئے سارے خواب پانی میں
ہجر میں تیرے اب بھی زندہ ہیں
لوگ مر جاتے ہیں جوانی میں
درد سے واسطہ پرانا ہے
ان کو پالا ہے نو جوانی میں
روگ ایسا لگا جوانی میں
آیا ہی کیوں وہ زندگانی میں
پھول جس کو تو نے روندا تھا
میں نے رکھا تری نشانی میں
خط کو بھی اس کے کھا گئی دیمک
آخری تھا بچا نشانی میں
دکھ تمہارے سمیٹ لایا ہوں
اور کیا کرتا مہربانی میں
جس نے لوٹا بھری جوانی میں
نام اس کا ہے اس کہانی میں
لکھ رہا ہوں میں اپنی بربادی
نام تیرا بھی ہے کہانی میں
چند کردار اب بھی باقی ہیں
میری لکھی ہوئی کہانی میں
عقد کھلتا رہے گا آگے بھی
کون رہتے تھے بد گمانی میں
اس کو لکھنا تھا یہ نہیں بالکل
کیا سے کیا لکھ دیا روانی میں
ساری دنیا میں اک حسیں تم ہو
آج کرتا ہوں ترجمانی میں
آؤ مل جائیں اس طرح سے ہم
آگ لگ جائے آج پانی میں
دل پہ اب بھی تری حکومت ہے
آؤ اب اپنی راجدھانی میں
تم جو سوچو تمہاری مرضی ہے
تم تو رہتے ہو بد گمانی میں
تم نے جو چاہا سو کیا میں نے
اور کیا کرتا میری رانی میں
رات کی رانی کا کروں گا کیا
جان اٹکی ہے اپنی رانی میں
بھولتے کیوں نہیں اسے ارشیؔ
خوش ہے وہ اپنی زندگانی میں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






