بُہتوں نے دھتکار کر ٹھکرایا پر آہ تک نہ نکلی
جَو تُو نے منع کیا تو جیسے جاں ہی نکل گئ
کچھ ایسی محبت کی داستاں تھی ہماری
کہ زباں فصیح تھی مگر خاموش بیچاری
دل اُسکا وہ دریا تھا کہ سفینہ سب کا پار اُتارا
ہم توکنارہ پہ اُسکے تھے پھر کیوں بہا گیا ہمیں
وصل کی پیاس میں دریائےیار کےسنگ اِتنا بیٹھے
کہ پانی بول اُٹھا کیا بات ہے آپ یہاں کیسے
وہ وہ دریا تھا کہ سب جس سے سیراب ہوتے رہے
ہم وہ ساقی تھے کہ جو ڈوب کر بھی پیاسے رہے
آرزُوئے وصل لئے درِ یار پر اِتنا بیٹھے
کہ نَر گدا بنےرقیب ہمارا حال پُوچھے
دل کی دھڑکن بنی محبوب کے در پر دستک
ہم بنے خُلقِ جاناں کے فقیر، اورصدا لگاتے رہے
تشبہیہ نہ دینا کبھی دل کو ویرا نہ سے عاجز
وہ بھی ایک زماں کبھی آباد ہوا کرتا تھا