نثار تم بھی محبت نگر گئے ہوتے
تو اپنا حال پریشان کر گئے ہوتے
تو اپنا صحنِ چمن خوشبووں سے بس جاتا
اگر یہ درد کے دریا اتر گئے ہوتے
فقط یہ آس ہی اب ذندگی کا حصہ ہے
تمہارے قرب میں رہ کر سنور گئے ہوتے
تم آئے ہو تو دلاسا ملا ھے سانسوں کو
وگرنہ ہم تو کبھی کے گزر گئے ہوتے
تو سر زمینِ قمر بھی اداس کر جاتی
اگر یہ لوگ تجھے دیکھ کر گئے ہوتے
نہ چھیڑ رندِ بلا نوش کو تو اے ناصح
یہ اپنے ہوش میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے