نظروں سے کرتے ہو ، نظاروں کی بات
لہروں سے کرتے ہو ، کناروں کی بات
جسے بن مانگے ہی سب مل جائے
تم ُاس سے کرتے ہو دعاوں کی بات
گلاب جو پیار کی اک بوند کو ترسا ہو
تم ُاس سے کرتے ہو سمندروں کی بات
جس بچے نے کبھی سکول ہی نہ دیکھا ہو
ُتم ُاس سے کرتے ہو ، سکولوں کی چھٹیوں کی بات
وہ تنہا مسافر جو کب سے ہیں راستوں میں
تم ُاس سے کرتے ہو آشیانوں کی بات
وہ شمع جو دن و رات مسلسل جلی ہو
تم ُاس سے کرتے ہو سکون دل کی بات
جو شخص زندگی سے ہی انجان ہیں لکی
تم ُاس سے کرتے ہو مرنے کی بات