ہر روز ہمیں اک نئی کہانی سناتا ہے وہ
جانے کیوں ہمیں دیکھ کے اتنے بہانے بناتا ہے وہ
ہم دور ہوں تو زلفِ پریشان سا ہو جاتا ہے وہ
پاس ہوں ہم اگر جی بھر کے شرماتا ہے وہ
تنہائی میں خود کو ہی سب گزارشات سناتا ہے وہ
دیکھنے کو خواب ہمارے بظاہر سو جاتا ہے وہ
خواب ہو ادھورے تو اداس ہو جاتا ہے وہ
ہر روپ میں آنکھ کو ہماری بھاتا ہے وہ
خزاں میں بھی بہاروں سا نظر آتا ہے وہ
خان نظر بھر کے نہ دیکھنا اکثر بیمار پڑ جاتا ہے وہ