نفرتوں یا محبتوں میں کلام آئے
ترے لبوں پے مگر میرا نام آئے
کومل ہاتھوں میں ہو گلاس تو پی جائوں ہنس کے
چاہے میرے لئے وہ زہریلا جام آئے
جھوم اُٹھوں خوشی میں ناچوں گاہوں میں
میرے لئے ترا جو کوئی پیغام آئے
اگر خدا دے مجھے جنم دوبارہ اِس جہاں میں
دل چاہے کہ ترا بن کے غلام آئے
تری محبت میں فقط محبت کی ہی خواہش نہیں
غنیمت سمجھو جو ترا کوئی الزام آئے
گھر کی دیواروں پے سجا لُویوں اُسے شوق سے
کانٹا بھی اگر کوئی تحفہِ سلام آئے
تُم رہو میری باہوں میں کسی روز جاناں!
پھر نہ کوئی دن کوئی شام آئے
جان کی قیمت دے کے لے لوئوں تجھے جہاں سے
سانسوں کا تجھ پے جو دام آئے
تُم آئو تو چین آئے دلِ بے تاب کو
تُم آئو تو جاناں! آرام آئے
نہال کے گھر آئو تُم دلہن بن کے کسی روز
دعا ہے جلد وہ ایام آئے