نفرت نہیں بے مجھ کو جسارت سے ڈر گیا
بے لوث عشق اس کی دنایت سے ڈر گیا
اب جس مقام پر ہوں میں حاصل ہی لیتا کر
رسوائی اس میں ہوگی شکایت سے ڈر گیا
لازم تھا عشق پیار تمازت میں ہی پڑے
اچھی نہیں ہے دشمنی نفرت سے ڈر گیا
قسمت نصیب اچھے نہیں ہیں مرے تو اب
جرات ہوئی نہ کیوں کہ عداوت سے ڈر گیا
ممکن نہیں ہے پیار سبھی کو ملے یہاں
سہہ کر غمِ فراق شقاوت سے ڈر گیا
نقصان کر چکا ہوں یہ پہلے بہت ہی میں
ہونا خسارہ ہی تھا تجارت سے ڈر گیا
ضائع ہی وقت ہونا تھا شہزاد اس لیے
بے کار پیار عشق محبت سے ڈر گیا