نفرت کو محبت کی ضرب لگانی ہو گئی
اب دور - رہ کر قسمت آزمانی ہو گئی
کناروں پر کشتیاں بھی ڈوب جاتی ہیں
مجھے یہ بات سب کو بتانی ہو گئی
کانٹوں سے سجا ہے راستا تمہارے پاس جانے کا
تمہاری خاطر مجھے اپنی ذات کانٹوں پر چلانی ہو گئی
بھول جاؤ گئی کیا - کتنا مشکل سوال پوچھا
ہاں کہنے کے لیے مجھے مسکراہٹ لبوں پر لانی ہو گئی
اب تو کاندھا بھی نہیں ملتا رونے کے لیے
سجدوں میں ہی مجھے اپنی داستان سنانی ہو گئی
کسی بھی لفظ میں اب درد نکلتا نہیں
درد لکھنے کے لیے سیاہی خون کی لانی ہو گئی
رونے سے خوشیاں ملتی تو ہم سے خوش کوئی اور نا ہوتا
زمانے کے لیے ہونٹوں پر مسکان سجانی ہو گئی