نفرت کی دھوپ میں برسات سے پہلے
حالات نا تھے ایسے تیری ملاقات سے پہلے
ہر کسی کو ہمدرد سمجھ لیتے تھے
ہم بھی کتنے سادہ تھے محبتوں کے تجربات سے پہلے
یہ بارش یہ ہوا یہ دھنک یہ موسم
کس کس سے محبت تھی تیری ذات سے پہلے
بکھرے تو بس ایسے ٹوٹ کے بکھرے
لوگ دیتے تھے مثال ہماری حادثات سے پہلے
تو یہ نا سمجھ تجھ سےالفت گئے دنوں کی بات ہے
ہم آج بھی سوچتے ہیں تجھے اپنی ذات سے پہلے