کریں بھی کیا کہ وہ یار ھمیں بھلا چکا
نقوش یادوں کے اپنے سب خود مٹا چکا
نہ چھوڑا اس نے کوئی رستہ واپس لوٹنے کا
یعنی راہ میں اپنی خود وہ کانٹے بچھا چکا
ھم نے لاکھ کی کوشش اسے باز رکھنے کی
مگر! وہ تھا کہ دشمنوں سے باتھ ملا چکا
وہ اک ذرا سی بات پر ایسا روٹھا ھم سے
کہ تمام رشتے ناطے اپنے سب بھلا چکا
بس بہت ھو چکی نصیحت اس یار کو
اس نہیں معلوم کہ وہ کیا کچھ گنوا چکا