نم ہیں پلکیں تیری اے موج ہوا، رات کے ساتھ
کیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات کے ساتھ
روٹھنے اور منانے کی حدیں ملنے لگیں
چشم پوشی کے سلیقے تھے، شکایات کے ساتھ
تجھ کو کھو کر بھی رہوں خلوت جاں میں تیری
جیت پائی ہے محبت عجب مات کے ساتھ
نیند لاتا ہوا، پھر آنکھ کو دکھ دتیا ہوا
تجربے دونوں ہیں وابستہ ہاتھ کے ساتھ
کہیں تنہائی سے محروم نہ رکھا مجھ کو
دوست ہمدرد رہے کتنے، میری ذات کے ساتھ