نگاہوں میں سرِشام وہ مقام آگیا ہے
ایسے ہی لبوں پہ اُس کا نام آگیا ہے
ہمیشہ خود کو بادشاہ جانا محبت کا ہم نے
وفا مانگنے کا اب تو مقام آگیا ہے
اہل دل بتا دو سب محبت کرنے والوں کو
یہ تھا خیال میں جو وہ انجام آگیا ہے
مقصد محبت کا کامیت اور پاکیزگی ہے
خود عرضی شخی کا پھر کیا کام آگیا ہے
بے یقینی تو مقصود توہین ہے محبت کی
کیوں محبت میں عمل یہ سرِعام آگیا ہے