نگاہ نہیں ہے میری ذوق ِ دید کے قابل
ہلال ِ عید کہاں میں ہوں عید کے قابل
ظلم کی برچھیاں اتنی ہیں میرے سینے میں
کہ جاں نہیں ہے میری اب مزید کے قابل
دہن نے آبلے پالے ہیں جبر ِ ظلمت سے
کہاں رہی یہ کسی بھی نوید کے قابل
خوشیاں بھی زیوروں سی گرانقدر ہیں اب تو
کہاں ہیں جیب میری اّس خرید کے قابل
میری افکار پہ، سوچوں پہ گراں تالے ہیں
نہیں ہے اب یہ کسی بھی وعید کے قابل