نہنگِ یاد سے ، یہ دل ستیزہ کار رہا
جو بحرِ غم میں رہا محرومِ رستگار رہا
اگرچہ دعویٰ نہیں ہم کو تیری چاہت کا
مگر یہ دل ، کہ سدا تیرا پرستار رہا
تمہیں بھی شوق نہ تھا درد و غم کے قصوِں کا
بیانِ حالتِ دل ، اپنے بھی جی پہ بار رہا
ہمیں تو عشق کی بے چینیاں رُلاتی رہیں
تمہارے دل پہ ، تمہیں کتنا اختیار رہا
محبتوں میں الگ سے ہیں سارے رِیت و رواج
اُسی نے دھوکہ دیا ، جس پہ اعتبار رہا
تمام عمر ، اُسی ایک شخص کی خواہش
تمام عمر ، خسارے کا کاروبار رہا
جمالِ دوست کا اعجاز ہے اُجاڑ سا گھر
بس ایک جلوے سے، اِک عمر مُشکبار رہا
تُمہارے عہد کا یہ المیہ ہے چارہ گرو
کہ حق پرستی کا انجام رسن و دار رہا
تمہیں تو خیر یہ احساس بھی نہیں ہو گا
کسی کو وقتِ نزع ، کس کا انتظار رہا