اشک اپنا ہو کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا
موج در موج اُلجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبنا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسن
دل پہ اُس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا