نہیں منت کشِ تابِ سماعت المیہ اپنا
چھلکتا جائے ہے پیمانہٴ صبر و وفا اپنا
میں کیسے دل کو بہلاؤں، میں کیسے اس کو سمجھاؤں
کہ اب سے بھی آگے بڑھ گیا ہے مسئلہ اپنا
مگر اک بات پھر بھی باعثِ تسکینِ خاطر ہے
کہ ہے ہنگامہ آرا ان کے دل میں تذکرہ اپنا
مرا دل جلوت و خلوت کی قیدوں میں نہیں ہرگز
ہمیشہ آتش ہجراں میں جلنا مشغلہ اپنا
مجھے معلوم ہیں مجبوریاں اپنی بھی ان کی بھی
محض اس واسطے ہے خامشی بس فیصلہ اپنا
وہ کوئی اور ہوگا چاہ کر پھر بھولنے والا
نہیں ہے چاہ کر پھر بھول جانا حوصلہ اپنا
وہ گو معبود کا مسئلہ ہو یا محبوبِ دنیا کا
فقط توحید کا ہر باب میں ہے نظریہ اپنا
سرِ بازار بے گور و کفن ہے عشق کی میت
نہیں قابل سنانے کے خلیلی# مرثیہ اپنا